فقط اپنی ضرورت کے لئے غم خوار تھے میرے
برہنہ سر جو زیر ساے دیوار تھے میرے
کہیں منصف ، کہیں مجرم ، کہیں بے خانماں تھا میں
ہر اک منظر میں یکسر مختلف کردار تھے میرے
کھلی جب آنکھ میری، اک عجب ہو کا بیاباں تھا
نہ تھے جا روب کش میرے نہ پہرے دار تھے میرے
پلک جھپکی تو ملبے کی طرح بکھرا پڑا تھا میں
کدالیں تھیں انہیں ہاتھوں میں جو معمار تھے میرے
وہ میرے دوست کب تھے جن سے دل کی بات میں کرتا
فقط دفتر کی میزوں پر شریک کار تھے میرے