دھوپ کے روپ میں برسات بھی ہوسکتی تھی
صبح کے دھوکے میں سیاہ رات بھی ہوسکتی تھی
کسی شکوے کو ہی بنیاد بنا کر آتے
اس بہانے سے ملاقات بھی ہوسکتی تھی
خار بھیجے ہیں مجھے اس نے ، تو حیرت سی ہوئی
کوئی چاہت بھری سوغات بھی ہوسکتی تھی
بے نیازی کی نظر سے مجھے تکنے والے
آپ کی نظر عنایات بھی ہوسکتی تھی
جلد بازی میں بھی تم جیت کے آئے ہو مگر
اس طرح سے تو تمہیںمات بھی ہوسکتی تھی
بے خطر ریشمی باتوں میں الجھنے والے
یہ محبت میں چھپی گھات بھی ہوسکتی تھی
شب سے واسطہ میری ذات کو کرنے والے
مجھ سے وابسطہ تیری ذات بھی ہوسکتی تھی
گفتگو بھی تو نہ ہو پائی کبھی اس سے بتول
باتوں باتوں میں وہ اک بات بھی ہوسکتی تھی