موت کی حقیقت اور
زندگی کے سپنے کی
بحث گو پُرانی ہے۔
پھر بھی اک کہانی ہے۔
اور کہانیاں بھی تو
وقت سے عبارت ہیں۔
لاکھ روکنا چاہیں
وقت کو گزرنا ہے۔
ہنستے ہنستے چہروں کو
اک دن اجڑنا ہے۔
راحتیں ہوائیں ہیں
چاہتیں صدائیں ہیں۔
کیا کبھی ہوائیں بھی
دسترس میں رہتی ہیں!
کیا کبھی صدائیں بھی
کچھ پلٹ کے کہتی ہیں!
پیار بھی نہیں رہنا
اور پیار کا دکھ بھی
آنسوؤں کے دریا کو
ایک دن اترنا ہے۔
خواہشوں کو مرنا ہے
وقت کو گزرنا ہے۔